سارہ چند ماہ کی تھی جب اسے بچوں کے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا اور ڈاکٹر نے اس چھوٹی سی بچی کو اینٹی بائیوٹک دوا تجویز کردی۔
فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا اور جلد ہی سارہ کے
والدین اسے بچوں کے امراض کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر زینت عیسانی کے پاس لے گئے۔
ڈاکٹر عیسانی نے غیر ضروری اینٹی بائیوٹک بند کر دی کیونکہ سارہ کو بیمار
کرنے والے جراثیم پر اینٹی بائیوٹک بے اثر تھی۔
|
|
پروفیسر صاحبہ نے سارہ کے والدین کو بتایا کہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال بہت
احتیاط سے کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ جن کیسز میں اینٹی بائیوٹک ضروری ہو ان
میں تو یہ جان بچا سکتی ہیں لیکن اگر غیر ضروری طور پر استعمال کیا جائے تو
نہ صرف یہ کہ اینٹی بائیوٹک فائدہ نہیں پہنچاتیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتی
ہیں۔
ڈاکٹر عیسائی کا کہنا ہے کہ کئی مرتبہ تو ڈاکٹر مریض یا اس کے لواحقین کے
اصرار پر اینٹی بائیوٹک لکھ دیتے ہیں۔
اور بچوں کے ڈاکٹر جم سیئرز - جو دنیا کے معروف جریدے 'ریڈرز ڈائجسٹ' میں
لکھتے ہیں - کا بھی یہی کہنا ہے کہ مریض کو ڈاکٹر سے اینٹی بائیوٹک کی
فرمائش نہیں کرنی چاہئے بلکہ اسے اپنے مرض کی علامات بتانی چاہئیں اور پھر
فیصلہ معالج پر چھوڑ دینا چاہئے۔
ڈاکٹر سیئرز کے بقول اینٹی بائیوٹک کے ضمنی اور ناپسندیدہ اثرات میں اسہال
بھی شامل ہیں کیونکہ اینٹی بائیوٹک سے آنتوں میں موجود فائدہ مند بیکٹیریا
جراثیم بھی مر جاتے ہیں اور یوں آنتوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جم سیئرز حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ
امریکہ میں بچوں کے امراض سے متعلق ادارے، 'امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس' کے
مطابق کم شدت کے امراض میں دوا لینے سے قبل کچھ انتظار کر لینا چاہئے
کیونکہ مرض ان جراثیم کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ جن پر اینٹی بائیوٹک بے
اثر ہوتی ہیں اور ایسے امراض کچھ وقت کے بعد خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
|
|
'ریڈرز ڈائجسٹ' کے اسی شمارے میں شیرن بیگلی لکھتی ہیں کہ انسانی جسم کے
اندر اور اوپر مختلف قسم کے جراثیم موجود ہوتے ہیں اور ان میں فائدہ مند
جراثیم بھی ہوتے ہیں جن کی تعداد انسانی خلیوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور
جراثیم کے اس مجموعے کو پریشان کر کے انسان صحت مند نہیں رہ سکتا۔
بشکریہ: ( وائس آف امریکہ) |