ڈینگی بخار مخصوص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماری ہے جو قابلِ علاج ہے۔ یہ بخار ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی ابھی تک کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ یہ مرض پاکستان میں کچھ زیادہ پرانا نہیں بلکہ دنیا کے تقریباً 100 ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ ایسے ممالک جہاں بارش زیادہ ہوتی ہے اور موسم گرما کا دورانیہ بھی زیادہ ہوتا ہے وہاں یہ بیماری زیادہ پھیلتی ہے۔ مثلاً سری لنکا، تھائی لینڈ، بھارت، ملائیشیا، انڈونیشیا وغیرہ۔
مرض کی ابتدائی علامت کیا ہے؟ ڈینگی بخار شدید فلو جیسی بیماری ہے جس کی علامت میں شدید بخار ہونا٬ جسم میں شدید درد ہونا٬ بھوک نہ لگنا٬ آنکھوں کے پیچھے درد ہونا٬ پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد ہونا٬ جسم میں دھبوں کا نمودار ہونا٬ سانس لینے میں دشواری٬ رنگت پیلی ہوجانا٬ پیٹ میں درد اور مریض کا صدمے کی حالت میں چلے جانا شامل ہے- |
|
ڈینگی وائرس سے ہونے والا بخار 100 فیصد قابل علاج ہے- اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں- ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت یابی تقریباً 95 فیصد ہوتی ہے تاہم اس کے اگلے مرحلے میں ڈینگی ہمریجک اور ڈینگی شاک سینڈروم خطرناک ہوسکتے ہیں- مریض کے خاندان کے لیے ہدایت مریض کا درجہ حرارت 102 فارن ہائیٹ سے کم رکھیں- مریض کو پیراسٹامول دیں لیکن 24 گھنٹے میں 4 مرتبہ سے زیادہ نہ دیں- مریض کو اسپرین یا بروفن دیں- مریض کو نارمل خوراک کے ساتھ زیادہ تعداد میں پانی٬ جوس٬ سوپ اور دودھ دیں- مریض کو آرام مہیا کریں- مریض کے لیے مچھر دانی کا بندوبست کریں تاکہ صحت مند لوگوں کو بیماری سے بچایا جاسکے- |
|
احتیاطی تدابیر
سورج نکلنے اور غروب ہونے کے وقت لمبی آستین والی قمیض یا شرٹ کا استعمال کریں تاکہ مچھر سے محفوظ رہیں ۔ جسم کے کھلے حصوں بازو اور منہ پر مچھر بھگاؤ کریم ( لوشن) لگائیں۔ گھروں اور دفتروں میں مچھر مار اسپرے اور کوائل میٹ استعمال کریں۔ دروازوں ، کھڑکیوں اور روشن دانوں میں جالی کا استعمال کریں ۔ گھروں کے پردوں پر بھی مچھر مار ادویات اسپرے کریں۔ اپنے بچوں کو ڈینگی مچھر سے بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کریں۔ ڈینگی کی تشخیص کہاں کی جاتی ہے علامت کی صورت میں قریبی مرکز صحت٬ سرکاری ہسپتال سے رجوع کریں- ہر مریض کو داخلہ کی ضرورت نہیں ہوتی- ڈاکٹر کے معائنہ اور ہدایت پر عمل کے بعد صحت یابی یقینی ہے- اس کا مرض تشخیص ہوجائے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں- ڈینگی قابل علاج ہے- |